تفسير ابن كثير



سورۃ آل عمران

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنْزِلَتِ التَّوْرَاةُ وَالْإِنْجِيلُ إِلَّا مِنْ بَعْدِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ[65] هَا أَنْتُمْ هَؤُلَاءِ حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ[66] مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَكِنْ كَانَ حَنِيفًا مُسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ[67] إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ[68]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اے اہل کتاب! تم ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو؟ جب کہ تورات اور انجیل تو نازل ہی اس کے بعد کی گئی ہیں، تو کیا تم سمجھتے نہیں۔ [65] دیکھو تم وہ لوگ ہو کہ تم نے اس بات میں جھگڑا کیا جس کے متعلق تمھیں کچھ علم تھا، تو اس بات میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا تمھیں کچھ علم نہیں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ [66] ابراہیم نہ یہودی تھا اور نہ نصرانی، بلکہ ایک طرف والا فرماں بردار تھا اور مشرکوں سے نہ تھا۔ [67] بے شک سب لوگوں سے ابراہیم کے زیادہ قریب یقینا وہی لوگ ہیں جنھوں نے اس کی پیروی کی اور یہ نبی اور وہ لوگ جو ایمان لائے، اور اللہ ہی ایمان والوں کا دوست ہے۔ [68]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اے اہل کتاب! تم ابراہیم کی بابت کیوں جھگڑتے ہو حاﻻنکہ تورات وانجیل تو ان کے بعد نازل کی گئیں، کیا تم پھر بھی نہیں سمجھتے؟ [65] سنو! تم لوگ اس میں جھگڑ چکے جس کا تمہیں علم تھا پھر اب اس بات میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا تمہیں علم ہی نہیں؟ اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے، [66] ابراہیم تو نہ یہودی تھے نہ نصرانی تھے بلکہ وه تو یک طرفہ (خالص) مسلمان تھے، وه مشرک بھی نہیں تھے، [67] سب لوگوں سے زیاده ابراہیم سے نزدیک تر وه لوگ ہیں جنہوں نے ان کا کہا مانا اور یہ نبی اور جو لوگ ایمان ﻻئے، مومنوں کا ولی اور سہارا اللہ ہی ہے، [68]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اے اہلِ کتاب تم ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو حالانکہ تورات اور انجیل ان کے بعد اتری ہیں (اور وہ پہلے ہو چکے ہیں) تو کیا تم عقل نہیں رکھتے [65] دیکھو ایسی بات میں تو تم نے جھگڑا کیا ہی تھا جس کا تمہیں کچھ علم تھا بھی مگر ایسی بات میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا تمہیں کچھ بھی علم نہیں اور خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے [66] ابراہیم نہ تو یہودی تھے اور نہ عیسائی بلکہ سب سے بے تعلق ہو کر ایک (خدا) کے ہو رہے تھے اور اسی کے فرماں بردار تھے اور مشرکوں میں نہ تھے [67] ابراہیم سے قرب رکھنے والے تو وہ لوگ ہیں جو ان کی پیروی کرتے ہیں اور پیغمبر (آخرالزمان) اور وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور خدا مومنوں کا کارساز ہے [68]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 65، 66، 67، 68،

ابراہیم علیہ السلام سے متعلق یہودی اور نصرانی دعوے کی تردید ٭٭

یہودی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اپنے میں سے اور نصرانی بھی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اپنے میں سے کہتے تھے اور آپس میں اس پر بحث مباحثے کرتے رہتے تھے اللہ تعالیٰ ان آیتوں میں دونوں کے دعوے کی تردید کرتا ہے،

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نجران کے نصرانیوں کے پاس یہودیوں کے علماء آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ان کا جھگڑا شروع ہو گیا، ہر فریق اس بات کا مدعی تھا کہ سیدنا خلیل اللہ علیہ السلام ہم میں سے تھے اس پر یہ آیت اتری کہ اے یہودیو تم خلیل اللہ کو اپنے میں سے کیسے بتاتے ہو؟ حالانکہ ان کے زمانے میں نہ موسیٰ تھے نہ توراۃ،سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور کتاب تورات شریف تو خلیل اللہ علیہ السلام کے بعد آئے، اسی طرح اے نصرانیو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو نصرانی کیسے کہہ سکتے ہو؟ حالانکہ نصرانیت تو ان کے صدیوں بعد ظہور میں آئی کیا تم اتنی موٹی بات کے سمجھنے کی عقل بھی نہیں رکھتے؟

پھر ان دونوں فرقوں کی اس بےعلمی کے جھگڑے پر رب دو عالم انہیں ملامت کرتا ہے اگر تم بحث و مباحثہ دینی امور میں جو تمہارے پاس ہیں کرتے تو بھی خیر ایک بات تھی تم تو اس بارے میں گفتگو کرتے ہو جس کا دونوں کو مطلق علم ہی نہیں،

تمہیں چاہیئے کہ جس چیز کا علم نہ ہو اسے اس علیم اللہ کے حوالے کرو جو ہر چیز کی حقیقت کو جانتا ہے اور چھپی کھلی تمام چیزوں کا علم رکھتا ہے، اسی لیے فرمایا اللہ جانتا ہے اور تم محض بے خبر ہو۔
1140

دراصل اللہ کے خلیل سیدنا ابراہیم علیہ السلام نہ تو یہودی تھے نہ نصرانی تھے وہ شرک سے بیزار مشرکوں سے الگ صحیح اور کامل ایمان کے مالک تھے اور ہرگز مشرک نہ تھے، یہ آیت، اس آیت کی مثل ہے جو سورۃ البقرہ میں گزر چکی «وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ تَهْتَدُوا قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ» [2-البقرة:135] ‏‏‏‏ یعنی یہ لوگ کہتے ہیں یہودی یا نصرانی بننے میں ہدایت ہے۔

پھر فرمایا کہ سب سے زیادہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی تابعداری کے حقدار ان کے دین پر ان کے زمانے میں چلنے والے تھے اور اب یہ نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ کے ساتھ کے ایمانداروں کی جماعت جو مہاجرین و انصار ہیں اور پھر جو بھی ان کی پیروی کرتے رہیں قیامت تک، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر نبی کے ولی دوست نبیوں میں سے ہوتے ہیں میرے ولی دوست انبیاء میں سے میرے باپ اور اللہ کے خلیل سیدنا ابراہیم علیہ السلام الصلٰوۃ والسلام ہیں، پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی (‏‏‏‏ترمذی وغیرہ) [سنن ترمذي:2995،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ پھر فرمایا جو بھی اللہ کے رسول پر ایمان رکھے وہی ان کا ولی اللہ ہے۔
1141



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.